عمران نیازی کا سر کچلنے سے پہلے الیکشن نا ممکن ہیں

جب قوم اندرونی تقسیم اور معاشی بحران کا شکار ہو کر تباہی کی طرف جا رہی ہو تو قوم کی بقا صرف و صرف اتحاد میں ہی ہوتی ہے . خراب معیشت ٹھیک ہو سکتی ہے . کچرے کے ڈھیر سے تاج محل تک کا سفر طے کیا جا سکتا ہے لیکن اگر بحران میں قومی تقسیم کسی سانحے کو جنم دے دے تو اس کا مداوا نہیں ہو سکتا . اس وقت قوم کو متحد کرنا ہی وقت کی اولین ضرورت ہے . اور قومی اتحاد میں سب سے بڑی رکاوٹ فتنہ عمران نیازی ہے . عمران نیازی کے پاس ملکی مسائل کا کوئی حل نہیں لیکن بحران کی صورت ملک کو جلا کر راکھ کر دینے والا ایندھن موجود ہے . عمران نیازی نہ صرف قوم کو تقسیم کر چکا ہے بلکہ اس کے سپورٹروں نے آزاد پختونستان کے نعرے بلند کرنا شروع کر دئیے ہیں . بات کے پی کے کی حد تک نہیں رکی ہوئی بلکہ عمران نیازی کے سپورٹروں نے افواج پاکستان پر پنجاب میں بھی حملے شروع کر دئیے ہیں
یہ وہ ہی فتنہ ہے جس سی اس قوم کو سالوں سے خبردار کیا جا رہا تھا لیکن قوم کان دھرنے کو تیار نہیں تھی . اس قوم نے تین جنگیں ایک دہشت گردی کے خلاف انتہائی خوفناک جنگ اور ایٹمی دھماکوں کے بعد پابندیاں بھگتیں لیکن جو حشر عمران نیازی کے تین سالہ دور حکومت نے برپا کیا اس کا مداوا صدیوں تک ہونا نا ممکن ہے . یہ ملک ستر سال چلتا رہا لیکن عمران نیازی کے تین سال بعد مکمل طور پر تباہ ہو گیا . لوگ اس کی شکل کے حسن میں کھو گۓ تھے لیکن اس کے پیچھے چھپا خونی ڈریکولا اپنا کام جاری رکھے ہوے تھا . عمران نیازی نے روز اول سے معاشی بربادی کا رستہ متعین کیا پہلا سال یہ سوچنے میں ضایع کر دیا ائی ایم ایف کے پاس جائیں یا نہ جائیں اور بعد میں ملکی معیشت بھیک پر چلانے کی کوشش کی . اس نے کامیابی سے ملکی معیشت کو تباہی و بربادی کی پٹڑی پر ڈال دیا تھا جہاں آج ملک کھڑا ہے
اب غلطیاں تو سب سے ہوئی ہیں کوئی دودھ کا دھلا نہیں لیکن ملک ایک بربادی کے موڑ پر کھڑا ہے تو عمران نیازی گد بن کر ملک کا جنازہ نوچنا چاہتا ہے . وہ چاہتا ہے کہ ادھر ملکی معیشت کا دیوالیہ نکلے ادھر وہ خمینی کی طرح افواج کے سربراہ کو پھانسی پر لٹکا دے اور اس کے ساتھ ہی ملک چار ٹکڑوں میں تقسیم ہو جاۓ . یہ وہ یہود کا ایجنڈا تھا جو انہوں نے اپنے مہرے کی مدد سے سر انجام دیا . اب ملکی بقا کی صورتحال ایک ہی ہے عمران نیازی کا سر کچل دیا جاۓ . عمران نیازی کو ملک میں خانہ جنگی برپا کرنے کے جرم میں سزاۓ موت سنا کر سولی پر لٹکا دیا جاۓ . قلع الموت میں حسن بن صباح کا فتنہ جب مسلمانوں سے ختم نہیں ہوا تھا تو خدا کا قہر نازل ہوا تھا ہلاکو چنگیز کی صورت . اب یا تو یہ قوم فتنہ عمران نیازی کا قلع قمع کرے یا پھر خدا کے قہر کا انتظار کرے

کیا عمران نیازی آسمان سے اترا صحیفہ ہے

عمران نیازی کی آزادی اور اس کی وجہ سے مشتعل کارکنوں کی بربادی دیکھ کر ایسا ہی لگتا ہے کہ اس وقت ملک میں ایک ہی مقدس گاۓ ہے اور وہ ہے عمران نیازی . جہاں لوگوں کی ماؤں بہنوں کو گھسیٹ گھسیٹ کر جیل میں ڈالا جا رہا وہیں موقع پر موجود عمران نیازی کی بہنیں آزاد گھوم رہی ہیں . بلوائیوں کا سردار عمران نیازی کا بھانجا جو سر بازار فوجی پتلوں کی عزت نیلام کر رہا تھا اسے یا اس کے گھر والوں کو خراش تک نہیں ائی . کیا ریاست عمران نیازی کے سامنے بے بس ہے جب کہ مشتعل کارکنوں کو نشان عبرت بنایا جا رہا ہے
اگر آپ کسی چراگاہ کے باہر کتے اکٹھے کر کے لے جائیں اور سمجھیں کہ یہ کتے صرف بھونکیں گے کاٹیں گے نہیں اگر آپ انہیں کنٹرول نہیں کر سکے آپ کے کتوں نے بھیڑ بکریوں کو چیر پھاڑ دیا تو ذمہ دار آپ ہیں . جب آپ اپنے کارکنوں کو کنٹرول نہیں کر سکتے تھے تو لاکھ آپ کے منع کرنے کے انہیں نے کور کمانڈر ہاؤس جلا دیا اور جلاؤ گھیراؤ کی وڈیوز بنائیں تو ذمہ دار آپ ہیں . ذمہ دار وہ ہی ہیں جو کور کمانڈر آفس کے باہر اپنے کارکنوں کو کنٹرول نہیں کر سکے لیکن احتجاج کے لیے کال دی . اس میں عمران نیازی کی بہنیں بھی شامل تھیں . آپ نے جنرل آصف نواز کی پوتی کو تو اٹھا لیا لیکن کیا عمران نیازی کوئی آسمان سے اترا ہوا صحیفہ ہے جو آپ اسے ہاتھ نہیں لگا سکتے
یہ ریاست کا دھرا میعار ہے کہ وہ عام عوام کی مائیں بہنیں تو اٹھاتی ہے لیکن جو جس نے سب کروایا ہے موقع پر موجود تھا اس کو کلین چٹ دے دی ہے . یا تو آپ اس فساد کی جڑ کو پکڑیں جو دو ماہ تک زمان پارک میں ریاستی رٹ چیلنج کرنے اور پولیس کے ساتھ جلاؤ گھیراؤ کی تربیت دیتا رہا یا پھر سب کوپ رہا کر دیں . یہ بہت عجیب بات ہے کہ دہشت گردوں کے سربراہ کو کھلی چھوٹ دے کر اس کے کارندوں کے خلاف ایکشن کیا جاۓ . پاکستان کی ریاست ناکام ہو چکی ہے کیوں کے یہاں بغاوت کی تربیت دینے والے اور حملے کروانے والے آزادانہ طور پر گھوم رہے ہیں . ریاست اپنا دھرا میعار ختم کرے یا تو سب کو رہا کرے یا ہولی نیازی فیملی کو بھی اٹھا کر جیل میں ڈالے

نیازی سوپ سیریل

کیمرے کی آنکھ ک ہیرو بننا تو دائیں ہاتھ کا کھیل ہے لیکن اصل زندگی میں ہیرو بننا بہت مشکل ہوتا ہے . کیمرے کی آنکھ سے ایک عرصہ تک نیازی ہیرو بنتا رہا لیکن اب جب حقائق سے ٹکراو ہوا ہے تو بھیگی بلی بنا بیٹھا ہے . یہ بڑی بڑی چھوڑتا رہا ملک میں آگ لگ جاۓ گی انقلاب واقع ہو جاۓ گا لیکن انجام کیا ہوا آج عوام کو اپیل کر رہا ہے تم بائیس کروڑ ہو اور پولیس اسی ہزار لیکن اس کے باوجود کوئی فرق نہیں
نیازی ایک سوپ سیریل کی طرح روز مرہ کی انجاۓ منٹ کا حصہ بن چکا ہے . نیازی ایکشن اور سسپنس سے بھر پور ایک سوپ سیریل ہے . لوگ اس کا مزہ تو لیتے ہیں لیکن جب یہ ٹویٹر پر رات بارہ بجے والا الو بن کر اپنی جان بچانے کی بھیک مانگتا ہے تو اسے بچانے کوئی نہیں آتا
پولیس نے میرے گھر کو چاروں طرف سے گھیر لیا ہے
یہ میرا گرفتاری سے پہلے آخری خطاب ہو سکتا ہے
وہ مجھے جان سے مارنے کی کوشش کریں گے
کارکن زمان پارک پہنچیں
پولیس کی بھاری نفری زمان پارک کی طرف بڑھ رہی ہے

سادہ الفاظ میں

مجھے بچا لو
مجھے بچا لو
الله کے واسطے
مجھے بچا لو

کیا کوئی غیرت مند آدمی اس طرح عوام سے اپنی زندگی بچانے کی بھیک مانگے گا . یہ اس کا ہر روز کا ڈرامہ ہے اور اب یہ عوام کے لیے روٹین بن چکی ہے . اگر کوئی نا واقف انسان اس کی ڈرامے بازی دیکھے تو سب چھوڑ کر زمان پارک پہنچے لیکن کیا کہ عوام اس کی یہ ڈرامے بازی پچھلے دس سال سے دیکھتی آ رہی ہے . کبھی اس ہزار دن کے دھرنے کی بات کی تو سو دن پورے نہ کر سکا . کبھی پلس دھرنا تو کبھی مائنس ریلی اس کے ڈرامے دیکھ دیکھ کر عوام کو یقین ہو گیا کہ یہ ایک فنکار ہے اور اس کو صرف سلیبرٹی کی حد تک ہی پسند کیا جا سکتا ہے . یہ لیڈر کے لیول کا بند نہیں ہے
اب کہتا ہے کہ میری ستر فیصد پاپولیٹی ہے او بھائی اس کاغذ کی بتی بنا لو یا کشتی بنا لو . ستر فیصد پاپولیٹی کا کیا اچار ڈالنا جب ہزار بندہ بھی آپ کی خاطر سڑک پر نکلنے کو تیار نہیں . اگر سروے ہو تو شاہ رخ خان کی پاپولیٹی اس سے بھی زیادہ نکلے فواد خان کی اور زیادہ نکلے . کیا فائدہ ایسی پاپولیٹی کا . کسی زمانے میں افتخار چوہدری کی پاپولیٹی کتنی تھا اعتزاز احسن کی پاپولیٹی کتنی تھی پھر نواز شریف کی پاپولیٹی کتنی تھی . بات یہ ہے کہ کھوتے کی طرح نیازی نے بہت ضد کی کہ کہیں سے عوامی سمندر نکلے گا اور سب بہا لے جاۓ گا . اب وہ سونامی والا انقلاب تو نہیں آیا حافظ جی کا ڈنڈہ ضرور آ گیا ہے نیازی کے انقلابی جن نکالنے

وسواس الخناس

عمران نیازی کی اہلیہ محترمہ بشریٰ بی بی جب عدالت حاضر ہوئیں تو وہ منظر دیکھنے کو ملا جس سے محترمہ کی پیری مریدی کے بارے باتیں سچی ثابت ہوتی ہیں . محترمہ نے سورج کی روشنی سے بچنے کے لیے سفید کپڑے کی چھاؤں میں قدم گاڑی سے باہر نکالے
ایسی باتیں وسواس الخناس کہلاتی ہیں مطلب الله کی قدرت کو چھوڑ کر کسی جادو ٹونے یا پتھر لکڑی کی کرامت پر یقین رکھنا . یہ جادو ٹونے کا نظام دنیا کا قدیم ترین نظام ہے یہ فرعون کے وقت سے چلا آ رہا ہے اور اس کے بنیادی اصول مسلمان اور برہمن کے لیے ایک ہی ہیں . سورج سے پردہ کرنا ، مردہ کے پاس نہ جانا اور کم ذات یا کم تر چیزوں کو ہاتھ نہ لگانا وغیرہ وغیرہ . یہ الله کے نظام کے الٹ ایک شیطان کا نظام ہے
یہ خوفناک نظام ہے . یہ ایک نشہ کی طرح ہوتا ہے جس کی لت لگ جاۓ تو انسان برباد ہو جاتا ہے . یہ نظام انسان کو ایک ہمزاد عطا کرتا ہے . ہمزاد انسان کا شیطانی یا جناتی روح ہوتا ہے . ہمزاد آتش جہنم سے بنا وجود ہوتا ہے جو انسان کی تمام تر نیکیاں کھا کر اسے جہنم میں اپنے ساتھ لے جاتا ہے . ہمزاد ایک ایسی چیز ہے جو انسان کو روحانی طور پر دنیا سے جوڑتی ہے . انسان اس کی طاقت سے لوگوں کی خفیہ سرگرمیاں ، مسائل اور مختلف قدرت کے راز جان لیتا ہے . یہ روحانی طاقت جاننے کا نظام ہے . یہ انسان کو منتر کی طاقت سے لے کر پتھر لکڑی کی طاقت تک سے رشناس کرتا ہے اور انسان اس سے نظام قدرت سے چھیڑ چھاڑ شروع کر دیتا ہے
ہمزاد پہلے انسان کے نیک اعمال کھاتا ہے پھر اس کی مدد سے دنیا میں تباہی لاتا ہے اور اسے جہنم تک لے جاتا ہے . اگر انسان ہمزاد کی طاقت سے کوئی چیز حاصل کرتا ہے تو اس کا مطلب صاف ہے اس نے جہنم کا سودا کیا ہے اور اپنی روح شیطان کو بیچ دی ہے . یہ نظام انسان کو بالکل اندھا کر دیتا ہے . اس نظام کی بنیادی شرط یہ ہی ہے کہ اپنے پیر کو خدا ماننا اور اپنے پیر پر جان قربان کر دینا . یہ نظام انسان کو پاگل کیے رکھتا ہے کبھی یہ منتر تو کبھی وہ منتر ، کبھی یہ پتھر تو کبھی وہ پتھر نہ انسان کو فلح نصیب ہوتی ہے اور نہ ہی وہ ناکام یا اس سے مایوس ہوتا ہے . اگر کوئی منتر پیٹ کا درد ٹھیک کرتا ہے تو اس پر یقین رکھنے والا انسان مرتا مر جاۓ گا دوائی نہیں کھاۓ گا بس منتر پڑھتا رہے گا
اپنے عمل سے عمران نیازی کی اہلیہ نے ثابت کیا ہے کہ وہ بہت زبردست قسم کا جادو ٹونا کرنے والی عورت ہے . یہ عورت لگاتار نظام قدرت سے چھیڑ چھاڑ کرتی آ رہی ہے اور اس کے نتائج سے لا علم ہے . کچھ لوگ تو سر درد یا زیادہ سے زیادہ اولاد تک کا جادو ٹونا کرتے ہیں لیکن بشریٰ بیگم اقتدار اور عوام کے کنٹرول کا منتر پڑھتی ہے . یہ صرف ایک دھوکہ ہے بس ایک بار نیکیاں کھانے کے لیے ہمزاد نے اقتدار دیا آگے اب اندھیری رات اور آتش جہنم ہے . اب نظام قدرت اس کو گھیر رہا ہے . اسے بند کمرے سے نکال کر عدالت تک لے آیا ہے آگے جیل ہے . یہ بہت برا پھنسے گی . عذاب الہی اسے چاروں طرف سے گھیر لے گا اور اس پر خدا کا قہر برسے گا جس سے بچنے کا رستہ نہیں ملے گا

فتنہ یا ملک ایک ہی چیز بچ سکتی ہے

یہ عمران نیازی کی پریس کانفرنس تھی کم و بیش پچاس افراد کی ہلاکت کے بعد جس میں وہ چیر مین نیب اور ڈی جی ائی ایس پی آر کو گالیاں بک رہا تھا . یہ بندہ کسی بھی وقت کسی قسم کی ذمہ داری کا احساس کرنے کے لیے تیار نہیں اور ہر وقت چھوٹے بچوں کی طرح لڑنے جھگڑنے کو تیار ہے . یہ اپنے سوا ہر کسی کو مجرم سمجھتا ہے اور خود کو عظیم مسیحا تصور کرتا ہے . یہ ایک دجال کا فتنہ ہے پہلے یہ نوجوانوں کو کھیل کود میں لگا کر برباد کرتا رہا پھر اس نے کالے دھن کے دھندے کے لیے شوکت خانم ٹرسٹ بنا لی . پھر یہ حکومت میں آیا اور ایسا فتنہ اس ملک کی جڑ میں بٹھا کر گیا جو اب اس ملک کے خاتمے کے قریب اس ملک کو لے گیا ہے . کل ملا کر یہ ایک بربادی و تباہی کا دیوتا ہے جس کے ہر اچھے اور برے کام میں انسانیت کی تباہی و بربادی کا راز پوشیدہ ہے
نہ لاکھوں لوگ سڑکوں پر نکلے اور نہ ہی کوئی انقلاب برپا ہوا . اسٹبلشمنٹ نے ایک پالیسی کے تحت شر پسندوں کو اکسایا اور اب انہیں کیفر کردار تک پہنچایا جا رہا ہے . جو بھی شر پسندی ہوئی اس کی قیمت اب پارٹی کے رہنما اور ورکر ادا کر رہے ہیں . اب جب نیازی عوامی دباؤ پر بغیر کچھ حاصل کیے رہا نہیں ہوا بلکہ سپریم کورٹ نے رہائی دلوائی ہے تو بھی اس کا دماغ آسمان سے نیچے نہیں آ سکا ہے . یہ اب بھی اپنے بھیانک انجام اور ملکی تباہی کو آوازیں لگا رہا ہے . اب بات واضح ہے یا تو یہ ملک بچ سکتا ہے یا پھر فتنہ نیازی بچ سکتا ہے . اگر اسے دوبارہ آزادی دی گئی تو اس بار یہ کور کمانڈر کا گھر نہیں بلکہ پوری فوج پر ہی جنگ مسلط کروا دے گا . کہا جاتا ہے کہ لیڈر اگر ایک رائی کی بات کرے تو فالور اس کا پہاڑ بنا لیتا ہے . اگر لیڈر فوج کو گالیاں دے رہا ہے تو اس کا مطلب صاف ہے اس کے فالور فوج سے جنگ لڑنے کی تیاری کر رہے ہوں گے . وہ اپنی کیپسٹی میں پٹرول بمب یا دوسرا بارود اور کلاشن کوفیں جمع کر کے باقاعدہ جنگ کی تیاری کر رہے ہوں گے . ان کے ہاتھ پتھر اۓ یا لکڑی اۓ یا گولا بارود اۓ وہ فوج پر حملہ آور ہوں گے
فوج کے خلاف نفرت اور جنگ کی بنیاد عمران نیازی کا فوج مخالف بیانیہ ہے . اس نے جرنیل کا نام لیا جی ایچ کیو اور کور کمانڈر ہاؤس جلا دیا گیا . اب وہ باقاعدہ پوری فوج کو اپنی گرفتاری کے معاملے میں گھسیٹ رہا ہے کہ فوج نے اسے گرفتار کیا اور تشدد کیا . اس کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ فوج کے خلاف مسلح بغاوت شروع ہو جاۓ گی
ایک طرف ماضی کی غلطیاں ہیں جو تمام سیاستدانوں اور ڈکٹیٹروں سے ہوئی ہیں اور دوسری طرف ملک کی موجودہ معاشی صورتحال جو بربادی کے دھانے پر کھڑی ہے . عمران نیازی نے تمام تر بربادی کا رخ مسلح افواج کی طرف موڑ کر انہیں کٹہرے میں کھڑا کر دیا ہے اور فوج کو ایسا پسپا کیا ہے کہ باغیوں کے حوصلے بلند ہو گۓ ہیں . اب یہ فتنہ واضح ہے اگر عمران نیازی کی گردن نہ مروڑی گئی اور اس کا قلع قمع نہ کیا گیا تو اس فتنے کی آگ پوری قوم کو اپنی لپیٹ میں لے لے گی اور عمران نیازی کے خوابوں کے مطابق فوج بنگلہ دیش سے بھی زیادہ خوفناک صورتحال کا سامنا کرے گی اور بھارت کے ان خوابوں کو بھی تعبیر ملے گی جس میں پاکستان چار ٹکڑوں میں بٹ جاتا ہے . قیادت آنکھیں کھول کر جلا ہوا کور کمانڈر آفس دیکھے اور فوج پر یوتھیوں کا پتھراو دیکھے نہیں تو پھر بنگلہ دیش والے انجام کے لیے تیار ہو جاۓ

کھلنڈرا کپتان

سردار جی اور طوطے کو جب جہاز سے پھینکا گیا تو طوطے نے پوچھا اڑنا جانتے ہو سردار جی نے کہا نہیں ؟ تو پھر شرارت کیوں کی تھی ؟ اب کوئی لنگڑے سے پوچھے پاکستان کی سیاست جانتے ہو ؟ نہیں تو پھر بار پنگے کیوں لے رہے ہو . لنگڑا وہ وقت بھول گیا جب ٹانگے پر لاوڈ سپیکر لگا کر چھان بورے پر پارٹی کی رکنیت بیچا کرتا تھا . اس کے بعد وقت کے جو ڈرتی ہیری تھے انہوں نے لنگڑے کی ایسی دستگیری کی کہ جناب کو تخت عطا کر دیا . اب بات وہ ہی ہے کہ کتا اپنے مالکوں کی طرف منہ کر کے نہیں بھونک سکتا . جناب نیازی روز بروز اپنے مالکوں کو بیچ چوراہے گھسیٹ لیتے ہیں جو ان کے لیے ایک چیلنج بن چکا ہے . ایسا محسوس نہیں ہوتا کہ نیازی کو واپسی کا رستہ کھلا رکھنا چاہتا ہے وہ مرو یا مار دو کی پالیسی پر گامزن ہے
یہ کپتان کی کھلنڈری طبیعت ہے اور بے صبری ہے . وہ بہت زیادہ اوور ری ایکٹ کر جاتا ہے ورنہ اس کے دور میں بہت سے سیاستدانوں نے جیل کاٹی لیکن کسی نے اداروں کو سیاست میں نہیں گھسیٹا . اب جناب نیازی پوری ایجنسی کو بیچ چوراہے کٹہرے میں کھڑا کر کے کیا ثابت کرنا چاہتے ہیں ؟ کہ پہلی بار اگر نشانہ خطا ہو گیا تھا تو اس بار ٹھیک نشانے پر بیچ کھوپڑی لگنا چاہئیے یا مرشد کے ساتھ گل والا سلوک کیا جانا چاہئیے ؟ مرشد اسی غلط فہمی میں ہے کہ عوامی سیلاب سب بہا لے جاۓ گا جب کہ مرشد کی اوقات ہزار بندوں کو اکٹھا کرنے کی نہیں . وہ اپنی مستی میں مست ہے کہ اگر کسی نے اسے ہاتھ لگایا تو اس کی پاپولیٹی ٹویٹر سے نکل کر سڑکوں پر سب بہا لے جاۓ گی . ایسا نہیں ہو گا . کپتان کی اتنی اوقات نہیں کہ اس کی گرفتاری کے رد عمل میں پورا ملک بند ہو جاۓ یا کوئی انقلاب برپا ہو جاۓ . ان حرکتوں سے وہ اپنے حصے کے چھتروں کی تعداد میں اضافہ کر رہا ہے اور جو اداروں کے صبر کا امتحان لے رہا ہے اس کے سنگین نتائج نکلیں گے
ایسا وقت ہر سیاستدان پر آیا ہے لیکن سب نے صبر کیا . اداروں کا خوفناک کھیل سامنے ہوتے ہوے بھی صبر کیا . اب جناب نیازی اپنا مقابلہ کرتا ہے نواز شریف سے کہ اس نے نام لیے . نواز شریف نے نام لیے تھے لیکن اس نے ادارے کی اشیر آباد سے نام لیے تھے اس سیاست کو کچلنے کے لیے جو کپتان فیض کے ساتھ مل کر ادارے میں کر رہا تھا . نواز شریف کو ادارے کی حمایت حاصل تھی اور اس وقت فیض گروپ کو ہرانا مقصود تھا . اب کیا نیازی کو حافظ جی کی حمایت حاصل ہے ؟ نیازی مقابلہ تو کرتا ہے نواز کا لیکن حالات مختلف ہیں . نتیجہ یہ نکلنا ہے کہ نیازی نے نہ صرف ذلت و رسوائی کی چکی میں پسنا ہے بلکہ جیل میں بھی چکی پیسنا ہے . نیازی کی دو تین ویڈیو نکلیں گی اور اس کی ساری لیڈری سڑ کے سوا ہو جاۓ گی . نیازی کا شیطانی روپ اگر قوم کے سامنے آ گیا تو یہ زمان پارک میں بھی منہ چھپا کر گھومے گا

لنگڑا بھنگڑا کیسے ڈالے گا

سنا ہے دس دن بعد چودہ مئی کو وہ الیکشن آنے والا ہے جس کی آمد کا سن کر قوم یوتھ نے خوب بھنگڑے ڈالے تھے اور خوب شہنائیاں بجائی تھیں . سوچنے کی بات ہے دس دن بعد نیازی پورا پنجاب سویپ کر جاۓ گا تو خوشی میں بھنگڑا کیسے ڈالے گا کیوں کے اس کی ٹانگ نے اس کا بوجھ اٹھانے سے معذرت کر لی ہے . اقتدار کے کھیل میں ٹانگ اڑانے کا نتیجہ یہ ہی نکلتا ہے کہ بندے کی ٹانگ اقتدار کی چکی میں پھنس جاتی ہے یا تو ٹانگ کاٹنی پڑتی ہے یا پھر اقتدار کی چکی پورا بندہ ہی نگل لیتی ہے . اب نیازی جیسا جاہل مطلق انسان مطلب ایسا کھوتا جسے زیبرہ بنا کر پیش کیا گیا ابھی تک صورتحال کی حساسیت نہیں سمجھ سکا . نیازی بھی ایسا کھوتا واقع ہوا ہے جو بمب کو دولتی مارنے سے باز نہیں آتا . یہ اس کا بھیانک انجام ہے جو اس سے بار بار دولتیاں مرواتا رہتا ہے
ایک طرف ٹانگ جواب دے رہی ہے اور دوسری طرف عدالت آوازیں مار رہی ہے لنگڑا اپنے بھیانک انجام کی طرف تیزی سے بڑھ رہا ہے . یہ وہ ہی سکندر اعظم ہے جو انسانی ڈھال کی اوٹ لے کر ریاستی مشینری کو ناکام بنا دیتا ہے لیکن آج کل یہ عدالتوں میں کھجل کھوار ہوتا کیوں پھر رہا ہے . ایسا نہیں لگتا کہ یہ سب اس کی شان کے خلاف ہے . عدالتوں کو چاہئیے تھا مرشد کے آستانے پر حاضر ہو جاتیں یہ مرشد کیوں عدالتوں کے چکر کاٹنے لگا
یہ ہوتا ہے انجام ایک نام نہاد لیڈر کا جو ملک کی تاریخی مہنگائی میں ایک کامیاب ریلی نہیں نکال سکتا . یہ لبرٹی گول چکر کی آدھی سڑک بھر کر اپنی اوقات کے مطابق بہت بڑا انقلاب برپا کر دیتا ہے لیکن انقلاب کے لیے لاکھوں افراد سڑکوں پر نکلتے ہیں جسے فرانس میں نکلے ہیں یا جیسے اردگان کے چاہنے والے نکلے ہیں . یہ دو کوڑی کا لیڈر تاریخی مہنگائی میں بھی ہزار بندہ سڑک پر نہیں نکال سکا . کیا اوقات رہ گئی اب اس کی مقبولیت اور سٹریٹ پاور دیکھ کر اگلوں نے دانت تیز کر لیے ہیں اور اسے کچا چبانے کا سوچا جا رہا ہے . یہ حقیقت میں ایک کھوتا تھا لیکن خود کو شیر سمجھتا رہا اور مارا گیا . اب یہ بات واضح ہو چکی ہے عوام کی نظر میں نیازی کی کوئی اوقات نہیں وہ ایک روایتی متبادل ہے لیکن عوام کی محبت یا حمایت حاصل نہیں . ہاں وہ پی ڈی ایم کی کوتاہیوں پر الیکشن جیت سکتا ہے لیکن اپنی اس کی اوقات ہزار بندہ بھی سڑک پر لانے کی نہیں
اسٹبلشمنٹ اسی وقت جھکتی ہے جب اسے ملک میں کوئی تحریک نظر آتی ہے . بھٹو نے ایوب کے خلاف تحریک چلا کر اسے پسپا کر دیا . اسی طرح ضیا الحق کے خاف تحریکیں چلیں . مشرف راج وکلا تحریک نے ڈبو دیا . اب نیازی کا امتحان ہے ، ملک میں تاریخی مہنگائی ہے کیا وہ کوئی تحریک چلا کر اسٹبلشمنٹ کو پسپا کر سکے گا یا پھر اسٹبلشمنٹ اسے دوڑا دوڑا کر ختم کر دے گی

خفیہ طاقتوں کے سخت گیر مارشل لا کی آمد

سیاستدانوں نے اپنے ہاتھ کاٹ کر بہت پہلے ہی اسٹبلشمنٹ کی جھولی ڈال دئیے تھے . سیاستدانوں نے عوام کا در چھوڑ کر ایسا اسٹبلشمنٹ کا دامن پکڑا ہے کہ اب کوئی عوامی طاقت اس ملک میں موجود نہیں جو اسٹبلشمنٹ کو ٹکر دے سکے . اسٹبلشمنٹ انڈے دے یا بچے دے کوئی پوچھنے والا نہیں . ایک چیف جسٹس تھا جس کے پچھواڑے پر بہت زیادہ الیکشن کی خارش ہو رہی تھی صرف ایک آڈیو کی مار تھا . وہ آڈیو تو صرف ایک اشارہ تھا جس کے پیچھے کا طوفان وہ جھیل نہیں سکتا تھا . اسٹبلشمنٹ نے اپنی طاقت دکھائی اور چیف جسٹس کو اس کی ساس یاد دلائی الیکشن کا قصہ تمام ہو گیا . چیف جسٹس کی طرح اس ملک کا کوئی بھی سیاستدان اسٹبلشمنٹ کو ٹکر نہیں دے سکتا . ایک بات تو طے ہے آرمی چیف مارشل لا نہیں لگا سکتا لیکن خفیہ طاقتیں ملک میں اپنا ایک مارشل لا لگانے کے موڈ میں نظر آ رہی ہیں
ایسا مارشل لا نظر آ رہا ہے جس میں حکمرانوں کی حیثیت صرف ایک کٹھ پتلی کی ہے اور اسٹبلشمنٹ کھل کر چوکے چھکے لگا رہی ہے . ایسا لگ رہا ہے اگلے تین چار سال الیکشن نہیں ہوں گے اور خفیہ طاقتوں کا انتہائی سخت گیر مارشل لا ملک میں نافذ کر دیا جاۓ گا .اس مارشل کا بنیادی مقصد عمران نیازی کا خاتمہ کرنا اور اور اس کی سیاسی حیثیت مکمل طور پر تباہ کر دینا ہے . یہ عمران نیازی کو گرفتار کریں گے اسے ٹارچر کریں گے اور اس کے ساتھ جنسی زیادتی بھی ہو سکتی ہے . اس کے ساتھ ساتھ تحریک انصاف کے کارکنوں کو بد ترین حالات کا سامنا کرنا پڑے گا انہیں بد ترین تشدد اغوا و قتل و غارت کا نشانہ بنایا جا سکتا ہے . جب تک عمران نیازی کی مقبولیت عروج پر رہے گی الیکشن نہیں ہونے دیا جاۓ گا اور عمران نیازی کو مختلف قسم کے ذہنی و جسمانی ٹارچر دے کر ذہنی معذور یا پاگل کر دیا جاۓ گا . اصل نشانہ عمران نیازی ہی ہے جو سسٹم میں موجود اپنے خاموش مجاہدوں کی مدد سے موجودہ ذمہ داروں کو انتقام کا نشانہ بنانا چاہتا ہے . اس سے پہلے کہ عمران نیازی کا ہاتھ موجودہ ذمہ داروں کے گریبان تک پہنچے اسے کاٹ دیا جاۓ گا
اسٹبلشمنٹ کی مدد سے حکمرانی بھی ایک طرح سے شیر کی سواری ہے جس سے اترتے ہی وہ سواروں کو کھانے کو دوڑتا ہے . موجودہ حکمرانوں کو اس کٹھ پتلی راج کا حصہ نہیں بننا چاہئیے اور ملک میں نگران حکومت تعینات کر کے ملک کی چابیاں اسٹبلشمنٹ کے سپرد کر دینی چاہیں . اصل میں تو لڑائی سیکورٹی ادارے کے دو دھڑوں کے درمیان ہے جس کا ایک دھڑا عمران نیازی کی مدد سے تبدیلی لانا چاہتا ہے . موجودہ حکمرانوں کو اس کھیل کا حصہ نہیں بننا چاہئیے . ماضی میں جیسے حالات یکسر بدلتے رہے ہیں ایسا مستقبل میں بھی ہونا کوئی غیر معمولی بات نہیں ہو گی اگر ملک کے حالات کنٹرول سے نکلنے لگے تو اسٹبلشمنٹ سے پہلے موجودہ حکمرانوں کو رگڑا لگے گا یہ اپنی سیاسی حیثیت کھو دیں گے
مرکز میں نگران حکومت بننے کے ساتھ ہی ایسا سخت گیر راج نظر آ رہا ہے جس میں نیازی ایسے پھڑ پھڑاۓ گا جسے پنجرے میں قید پنچھی. ابھی تو پیار سے نیازی کو سمجھایا جا رہا ہے لیکن آنے والا وقت بہت سخت ہو گا . اقتدار کا کھیل تخت یا تختہ ہی ہوتا ہے

اسٹبلشمنٹ نے پہلے بھی پنجاب نون لیگ کو نہیں لینے دیا تھا

اسٹبلشمنٹ ایک ڈرامے کو لوگوں کی یادداشت سے مٹانے کے لیے آگے بہت سے نۓ ڈرامے لگاتی ہے . جیسا کہ پچھلے سال اپریل میں رات کو بارہ بجے عدالتیں کھلیں ، پارلیمنٹ کے باہر پرزن وینز اور ائرپورٹس پر سیکورٹی الرٹس یہ سب کیا ہوا تھا کوئی بھی زی شعور انسان سوچ سکتا ہے کہ ایمر جنسی کی حالت کوئی خاص وجہ سے ہی لگائی گئی ہو گی . وجہ تو صاف تھی کپتان نیازی نے پاکستان کی افواج کے سربراہ کو ہٹا کر اپنی مرضی کا چیف لگا دیا تھا جس پر اسے تشدد کے ساتھ وزیر اعظم ہاؤس سے ذلیل کر کے نکال دیا گیا تھا . اب اس رات کی یادیں مٹانے کے لیے روز نیا ڈرامہ ہوتا ہے
اسٹبلشمنٹ کی اس ڈرامے بازی میں سب سے زیادہ کہنہ مشق نون لیگ بنی . کبھی پنجاب دیا گیا کبھی لیا گیا اور آخر میں پنجاب مکمل طور پر چھین لیا گیا . دیکھنے میں صاف نظر آتا ہے آخر پرویز الہی کن کا بندہ ہے اور کیوں تحریک انصاف میں اسے ایک بڑا عہدہ دیا گیا . اسٹبلشمنٹ کبھی بھی پنجاب نون لیگ کو نہیں دینا چاہتی تھی اس لیے الیکشن کا رستہ نہیں روکا گیا ونہ جو عدالتیں رات کو بارہ بجے کھل جاتی ہیں ان کی کیا اوقات کہ اسٹبلشمنٹ کی منشا کے خلاف فیصلہ دیں . اسٹبلشمنٹ جو چاہتی تھی اس نے وہ حاصل کر لیا شریف خاندان کی سیاست کا جنازہ نکال دیا . شریف خاندان کی ساری سیاست معیشت اور پاپولر ووٹ کے گرد گھومتی تھی جو اب ہاتھ سے نکل چکا ہے . دیکھنے میں سب سے زیادہ پرو اسٹبلشمنٹ نون لیگ ہے اور معاشی تباہی کی ذمہ دار بھی نتیجہ یہ ہی ہے کہ ان کے پاس الیکشن میں جانے کے لیے کوئی بیانیہ نہیں . جس طرح نون لیگ نے اپنی سیاست اسٹبلشمنٹ پر قربان کر دی اس طرح اسٹبلشمنٹ نے ان کی مدد نہیں کی
نون لیگ کے نیازی کے خلاف ناکام اقدامات نے اسے مزید پاپولر بنا دیا ہے . یا تو گرفتار کر لیتے یا گرفتار کرنے کی کوشش نہ کرتے اب جو بھی مقدمات نیازی کے خلاف بنیں گے انہیں عدالتیں چلنے نہیں دیں گی . جو زمان پارک کا گناہ بے لذت تھا وہ بھی ڈرٹی ہیری کی فرمائش پر تھا جسے نیازی نے سائیکو پیتھ کہ دیا تھا اب نتائج ڈرٹی ہیری نے تو نہیں بھگتنے نون لیگ نے بھگتنے ہیں . زمان پارک کے بدلے گیٹ نمبر چار نہیں ٹوٹنا جاتی امرہ کا گیٹ ٹوٹنا ہے . اس وقت یہ لولی لنگڑی حکومت ہے . اب اگر سپریم کورٹ نے گورنر سٹیٹ بینک کو کہ دیا الیکشن فنڈز ٹرانسفر کا تو پارلیمنٹ محض مراثیوں کا سٹیج شو بن کر رہ جاۓ گی جس کی کوئی طاقت یا اوقات نہیں ہو گی . باقی رہ گئی بات کسی ریفرنس کی تو اب حکومت کے پاس اتنا وقت نہیں کہ ریفرنس کی جنگ لڑ سکے . پی ڈی ایم کو اسٹبلشمنٹ نے ہی دغا دیا ہے اب نہ خدا ہی ملا نہ وصال صنم

لنگڑے کا انجام

ریاست کی گود میں پلے وہ ناز نخرے والے انقلابی جو یہ سوچ نہیں سکتے تھے کہ انہیں گرم ہوا چھو سکتی ہے ،.وہ ابھی تک سوشل میڈیا کو ہی مرکز انقلاب سمجھے ہوے تھے اور خوابوں کی دنیا میں مست گالم گلوچ کی ساری حدیں پار کر رہے تھے . پھر ریاست حرکت میں ائی اور اب کوئی جیلوں میں سڑ رہا ہے اور کوئی غائب کر دیا گیا ہے . یہ سوچ نہیں سکتے تھے کہ ان کے ساتھ وہ سلوک ہو سکتا ہے جو ماضی میں سیاسی پارٹیوں کے ساتھ ہوتا رہا ہے . لنگڑا یہ سمجھتا تھا کہ وہ گرفتاری میں مزاحمت کرے گا اور ملک میں کوئی انقلاب برپا ہو جاۓ گا . آخر لنگڑے کو ٹکٹ کے بدلے پچاس بندے لانے کی دھمکی لگانا پڑی لیکن کیا زمان پارک کسی انقلاب کا مرکز بن گیا کوئی تحریر سکوئر بن گیا . کچھ بھی نہ بن سکا . بس لنگڑا مزید مقدمات میں پھنس گیا . یہ تو ریاست سے بغاوت والی بات تھی اور تماشا لگایا اپنی گرفتاری روکنے کے لیے جسے روکنا نا ممکن ہے
ایک کھلنڈرا کھلاڑی جو اس وقت تک ہی سکندر تھا جب تک ایجنسیوں کا وفادار تھا اور ان کے اشاروں پر ناچتا تھا . پھر جب اپنے سر پر ائی ہر موقع پر بلنڈر کیا اسمبلیوں سے استعفوں کا بچگانہ فیصلہ پھر اسمبلیاں توڑنے کی نادانی اور اس کے بعد بھی جب ریاست نے ایک میز پر بٹھانا چاہا یہ اپنی اکڑ میں ڈٹا رہا . اسے زعم تھا کہ اس کی پاپولیٹی سب بہا لے جاۓ گی لیکن اس کے گرفتاری کے ڈرامے کے بعد بھی کسی انقلاب کا کوئی خطرہ ریاست کو محسوس نہ ہوا تو اب ریاست اسے بلڈوز کرنے کے چکر میں ہے اور یہ اب آوازیں لگا رہا ہے میں سب سے بات کرنے کو تیار ہوں . اب تمہارا کھیل ختم . اب وہ انقلاب نہیں آنا جس سے تم ریاست کو ڈرا رہے تھے اب تمھاری گردن نے پھندے میں آنا ہے . یہ تو واضح ہو گیا اس کی احتجاجی حیثیت کسی کام کی نہیں اور سیاست پہلے بھی لوٹوں کے سر پر ہی کرتا آ رہا ہے
انقلاب لانا ٹویٹر اور ٹک ٹاک کا کام نہیں . انقلاب تب آتے ہیں جب عوام کا درد رکھنے والی بے خوف قیادت عوام کی زبان بولتے ہوے انہیں ایک مقصد کی خاطر اکٹھا کرتی ہے . جب عوام کو یقین ہوتا ہے ان کے لیڈر کے الفاظ بائبل ہیں نہ کہ وہ کنجر خانہ جو ٹک ٹاک پر دوسروں کی تضحیک اور جگت بازی کا انٹر ٹینمنٹ بن کر چوبیس گھنٹے بجتا ہے . لیڈر کی طرح فنکاری کر کے کوئی لیڈر نہیں بن سکتا . لیڈر بننے کے لیے اس کردار کی ضرورت ہوتی ہے جو نڈر بے خوف اصول کا پکا عزم صمیم اور مشکلات کشا جیسی صلاحیتوں سے لیس ہو . ایک کرکٹر جس نے ساری زندگی کھیل کود اور رنڈی بازی میں گزاری ہو اس کی کیا اوقات کہ وہ ایک قومی لیڈر بن سکے . لنگڑے کو ایک موقع ملا تھا حکومت ملی تھی لیکن وہ ایسا کچھ نہیں کر پایا کہ چند ہزار لوگ اس کے جانثار بن جائیں . آج وہ پچاس پچاس لوگوں کی بھیک مانگتا ہے اور وہ بھی اپنی ٹکٹ کی قیمت لگا کر. لنگڑا وہ نشان عبرت بنے گا جسے دیکھ کر لوگ کہیں گے کہ یہ ہے وہ بادشاہ جو اپنے کرتوتوں کے سبب بھکاری بن کر ذلت کی زندگی گزار رہا ہے