لنگڑے کے دن گنے جا چکے

حالات تیزی سے اب اس حادثے کی طرف بڑھ رہے ہیں جہاں ایک اندھی موت پوری ملت شیرازہ بکھیر کر رکھ دیتی ہے . امت مسلمہ کی بربادی کا آغاز خلیفہ سوئم کی اندھے قتل سے ہوا . پاکستان میں لیاقت علی خان اور محترمہ بے نظیر بھٹو کے اندھے قتل نے ملک کو تباہ کرنے میں اہم کردار ادا کیا . اب جو بربادی اس ملک کی طرف بڑھ رہی ہے اس کا نقطہ انتہا ایک اور اندھا قتل ہی ہو سکتا ہے . ایسا صرف ایک شخص ہے جس کا اندھا قتل ملک میں حد سے زیادہ تباہی مچا سکتا ہے وہ ہے لنگڑا کپتان
جیسے جیسے عالمی قوتیں لنگڑے کپتان کے قتل کے قریب پہنچ رہی ہیں ویسے ویسے ملک میں افواہوں کے بازار گرم کیے جا رہے ہیں . بظاہر قتل کا الزام چیف پر لگایا جا رہا ہے لیکن اس قتل کے حقیقی محرکات لنگڑے کپتان کے قریبی ساتھی ہی ہوں گے . لنگڑے کپتان کی جان کو دو خواتین سے بہت زیادہ خطرہ ہے دونو ہی اس کی بیویاں ہیں . ایک سابقہ بیوی جو یہودی تنظیموں کی ایجنٹ ہے وہ کچھ ایسا کارنامہ سرانجام دے سکتی ہے جس سے لنگڑے کی موت واقع ہو جاۓ . کوئی ایسا تحفہ یا پرفیوم جو لنگڑے کی جان لے لے . لنگڑے کی جان کو سب سے زیادہ خطرہ موجودہ بیوی سے ہے . لنگڑے کی موجودہ بیوی شیطانی تنظیموں کے لیے کام کرتی ہے اور کالا جادو کرتی ہے . شیطانی قوتیں ملک میں فساد اور انارکی پیدا کرنا چاہتی ہیں اس لیے لنگڑے کی موجودہ بیوی اس کا کام تمام کر دے گی . یہ بھی قیاس کیا جا سکتا ہے کہ لنگڑے کی بیوی نے اسے وزیر اعظم بنوانے کے لیے اس کی روح شیطانوں کو فروخت کر دی تھی اور اب شیطان کسی بھی وقت اس کی جان لے سکتے ہیں
ایسا ہو گا کہ لنگرہ مردہ حالت میں پایا جاۓ گا اور اس کا قاتل نا معلوم ہو گا . اس کے بعد لنگڑے کے حشیشن ملک میں آگ و خوں کا بازار گرم کر دیں . ملک میں افرتفری پھیلا کر اسے ختم کرنے کی کوشش کی جاۓ گی . لنگڑے کا اندھا قتل ملک میں بہت زیادہ فساد پیدا کرے گا . اس سے موجودہ حکمرانوں کی ساکھ تباہ ہو جاۓ گی . لنگڑے کی موت سے ملک میں انقلاب اۓ گا . ملک کا روشن مستقبل لنگڑے کی قربانی سے شروع ہو گا

ذلت کا سمندر ڈوب کر جانا ہے . پی ڈی ایم

لنگڑے نیازی نے بہت کوشش کی کہ وہ کوئی نہ کوئی تحریک شروع کرے کی لیکن وہ کامیاب نہ ہو سکا مگر اب جو حکومت نے گرفتاری کا ڈرامہ شروع کیا ہے اس سے ضرور کوئی نہ کوئی تحریک نکلتی نظر آ رہی ہے . اس کی دو وجوہات ہیں ایک تو الیکشن ہے اور دوسری تاریخ کی بد ترین مہنگائی . جسے ریاست لنگڑے نیازی کو سرنڈر کر رہی ہے ریاست کی کمزوری عوام کے سامنے عیاں ہو رہی ہے جس سے مزید لوگ احتجاج کرنے کا حوصلہ پکڑ رہے ہیں . حکومت کا یہ آنکھ مچولی کا کھیل ایک طرف لنگڑے کو مطلوب سیاسی ہنگامے فراہم کر رہا ہے اور دوسری طرف حکومت کی ساکھ بھی تباہ کر رہا ہے
پی ڈی ایم حکومت انتہائی کمزور وکٹ پر کھیل رہی ہے . آج بھی ان کی ساری سیاسی کلکولیشنز اسٹبلشمنٹ کے حوالے سے ہیں جب کہ عوامی محاذ پر یہ بری طرح سے شکست کھا چکی ہے . یہ صورتحال ایسے ہی ہے جسے مشرف کے اختتامی دور میں بنی تھی . وکلا تحریک نے نون لیگ کو نیا جنم دیا تھا اور تشدد و انتقام کی سیاست نے قاف لیگ کو ڈبو دیا تھا. آج نون لیگ وہیں کھڑی ہے جہاں قاف لیگ کھڑی تھی لیکن قاف لیگ کے پاس کچھ نہ کچھ اختیارات اور پلاننگ تھی جب کہ نون لیگ کے پاس نہ کوئی اختیار ہے نہ پلاننگ ہے اور نہ ہی حوصلہ ہے . لنگڑے کی گرفتاری کے ڈرامے سے حکومت ساکھ دن بدن تباہ ہوتی جاۓ گی اور الیکشن کے موقع پر لنگڑے کو ہمدردی کا ووٹ بھی پڑے گا . الیکشن کے موقع پر لنگڑے کو گرفتار کرنا زیادہ خطرناک ہے اور گرفتاری کے ڈرامے کرنا اس سے بھی زیادہ خطرناک . دونو صورتوں میں عوامی ہمدردی کا ووٹ لنگڑے کی پارٹی کو جاۓ گا
پی ڈی ایم حکومت کے ہاتھ میں کچھ نہیں انہیں صرف و صرف ایک ذلت کا دریا ڈوب کر جانا ہے . یہ اپنے عوام کش اقدامات سے کسی قسم کی ہمدردی اور دلیل کا جواز کھو چکے ہیں . بہتر یہ ہی تھا موقع ملتے ہی حکومت چھوڑ دیتے لیکن انہوں نے عوام کا نہیں سوچا اور مہنگائی سے تباہی پھیلا کر سیاسی خود کشی کر لی . قاف لیگ کا صفایا ہو گیا تھا اب نون اور جے یو ائی کا بھی صفایا نظر آ رہا ہے . جب آپ کی سیاسی حیثیت ہی ختم ہو جاۓ گی تب آپ کا کیا مقام بچے گا جو پرویز الہی کی قاف لیگ کا بچا تھا . کسی خواب میں مت رہنا کہ عوام کا خوں نچوڑنے کے بعد بھی کوئی کامیابی ملے گی . اسٹبلشمنٹ کامیاب ہو گئی انہوں نے اس بار نون لوگ کے وہ گڑھ بھی توڑ دینے ہیں جو مشرف نہ توڑ سکا تھا . اسٹبلشمنٹ جتنی مرضی سگی ہو جاۓ جب عوامی حیثیت ختم تو سب کچھ ختم

اسٹبلشمنٹ کی چال کامیاب لنگڑا جال میں پھنس گیا

اسٹبلشمنٹ کا پہلا ٹارگٹ الیکشن ملتوی کروانا تھا اور اس مقصد کے لیے لا اینڈ آرڈر کی صورتحال پیدا کرنی تھی . لنگڑا نیازی جال میں پھنس گیا اگر وہ توشہ خانہ میں گرفتار ہو جاتا تو اسے جلد ضمانت مل جاتی اور الیکشن کی صورتحال بھی قائم رہتی لیکن اب جب کہ وہ ایک بغاوت کے رستے پر چل نکلا ہے اور ریاستی اداروں کے ساتھ ٹکراو اختیار کر گیا ہے تو لا اینڈ آرڈر کی صورتحال پیدا ہونے کی وجہ سے اب نہ الیکشن نظر آ رہے ہیں اور نہ ہی لنگڑے کو کوئی ضمانت ملتی نظر آ رہی ہے . اب توشہ خانہ کیس پس منظر میں چلا جاۓ گا جب کہ دہشت گردی کا کیس اہمیت اختیار کر جاۓ گا جس میں لنگڑے کو ضمانت ملنا ممکن ہو گا . لنگڑے پر پہلے جتنے بھی کیس ہوے وہ سب قابل ضمانت تھے لیکن اب جو بغاوت اور دہشتگردی کے مقدمات ہیں ان سے نکلنا ہو گا
یہ تماشا بھی دو ہزار چودہ کے دھرنے کی طرح ایک جذباتی اور جوشیلا فیصلہ ہے . آخر کب تک لنگڑا زمان پارک میں محصور رہے اور کب تک اپنے ہزاروں ورکروں کے راشن پانی پر اربوں خرچ کرتا رہے گا . یہ جوش ایک دو ہفتے میں ختم ہو جاۓ گا اور لنگڑا پچھلے دھرنے کی طرح اکیلا کرسیوں سے خطاب کر رہا ہو گا . اس تماشے کی وجہ سے اب الیکشن کا التوا لازمی ہے . انتظامیہ پہلے ہی ہاتھ کھڑے کر چکی الیکشن کمیشن بھی اعلان کر چکا بغیر سیکورٹی الیکشن ممکن نہیں . مطلب لنگڑے نے اپنے پیروں پر خود کلہاڑی ماری
بات وہ ہی ہے جو ڈر گیا وہ مر گیا . لنگڑا ڈر گیا اور وہ اپنی لیڈری کی موت مر گیا . جس وقت بنگلہ دیش بنا اس وقت شیخ مجیب جیل میں تھا . نیلسن منڈلا جیل کاٹنے کی وجہ سے ہیرو بنا . نواز شریف بھی جب جیل میں تھا تب ہی اس کی مقبولیت بڑھ رہی تھی جس کے خوف سے اسے ملک سے نکالا گیا . اگر نیازی جیل چلا جاتا تو ایک بڑی عوامی تحریک شروع ہو جاتی لیکن اب قوم کو اپنی فکر ہے اور لنگڑے کو اپنی فکر ہے . اب لنگڑا قوم کو بلاتا ہے مجھے بچاؤ اور قوم لنگڑے کو آواز مارتی ہے ہمیں بچاؤ . اب لنگڑا قومی لیڈر نہیں رہا بس ایک پارٹی کا لیڈر بن کر رہ گیا ہے جو ٹکٹ کی قیمت پر احتجاج کے لیے بندے اکٹھے کرتا ہے
لنگڑے نیازی جیسے بچونگڑے لیڈر جو بچوں کی طرح جذباتی سیاست کرتے ہیں اس کا انجام وہ ہی ہوتا ہے جو دھرنا فساد کا ہوا تھا . اپنے ورکروں کو قانون شکنی اور ریاست سے جنگ لڑا کر وہ کیا حاصل کر لے گا . ریاست کو ایک لا اینڈ آرڈر کا بہانہ دے دیا اور خود چوہے کی طرح چھپ گیا . جو رات قبر میں ہے وہ گھر میں نہیں . جو گرفتاری سے ڈر گیا وہ اپنی لیڈری کی موت مر گیا

مقصد گرفتاری نہیں کچھ اور ہے

لنگڑے چوہے نے جو ڈرامہ لگایا ہوا ہے اسٹبلشمنٹ بھی یہ ہی چاہتی ہے کیوں کے اسی لا اینڈ آرڈر کی صورتحال کو جواز بنا کر وہ الیکشن ملتوی کروانا چاہتے ہیں . کل جو الیکشن کمیشن نے اعلامیہ جاری کیا ہے اس کا پریکٹیکل اور جواز بنایا جا رہا ہے . ایسی صورتحال جس میں پولیس انارکی کو کنٹرول کرنے میں مصروف ہو الیکشن ڈیوٹی نہیں دے سکتی
یہ عجیب بات ہے نہ آپریشن ختم ہو رہا ہے اور نہ ہی گرفتاری ہو رہی ہے . نہ انٹرنیٹ بند ہو رہا ہے اور نہ ہی میڈیا کوریج روکی جا رہی ہے . مقصد یہ ہی تھا کہ تحریک انصاف ملک میں کوئی لا اینڈ آرڈر کی صورتحال پیدا کرے اور الیکشن ملتوی ہونے کا جواز سچ ثابت ہو جاۓ . لیکن لنگڑے نیازی کی اتنی اوقات کہاں کہ وہ ملک میں کوئی صورتحال پیدا کر سکے . وہ کل سے بھیک مانگ رہا گڑگڑا رہا ہے کہ زمان پہنچو زمان پارک پہنچو لیکن پولیس بار بار اس کے گھر کے باہر جا کر اس گھر شیل پھینک کر اشتعال دلانے کی کوشش کر رہی ہے مگر کسی قسم کے انقلاب کی کوئی امید نہیں . یہ جو سٹرٹیجی ہے اس سے عوام میں ہیجان اور اشتعال اپنی انتہا کو پہنچ جاتا ہے اس کے باوجود ملک میں کوئی بڑا ہنگامہ برپا نہیں ہو سکا
وہ لنگڑے کو گرفتار نہیں کرنا چاہتے وہ گھر کے باہر جا کر گھر کے اندر شیل مار سکتے ہیں لیکن گرفتار نہیں کر سکتے . پولیس دروازے تک پہنچ گئی تھی لیکن پھر پیچھے ہٹ گئی . یہ سب لنگڑے نیازی کی لیڈری کا ٹیسٹ ہے کہ وہ کتنا بڑا انقلاب برپا کر سکتا ہے . اب دیکھنا یہ ہے کہ لنگڑا کسی چوک پر کھڑا ہو کر عوام کے جم غفیر میں کسی انقلاب کی نوید سناتا ہے یا چوہے کی طرح گھر میں دبکا بیٹھا رہتا ہے
ایسی صورتحال سے مزید فائدہ یہ ہو گا کہ قانون میں رکاوٹ بننے اور پولیس پر تشدد کے الزام میں مزید تحریک انصاف کے رہنما یا لنگڑے کے جانثار قانون کے شکنجے میں آئیں گے اور سزائیں بھگتیں گے
آمریت میں سیاستدان بھیک مانگتے ہیں آزادی اظہار کی احتجاجی مظاہروں کی . سیاستدان کسی صورت آمریت کے قانون شکن رویوں پر سول نافرمانی یا بغاوت نہیں کرتے . کیوں کے سیاست نام ہی خون خرابے کے بغیر جنگ کا ہے . ایسے میں جب لنگڑے نیازی کو ریاستی اداروں کی اشیر آباد بھی حاصل ہے وہ قانون شکن رویہ اپنا کر ریاست کو آمریت مسلط کرنے کا جواز دے رہا ہے.کوئی لیڈر ایسا نہیں کر سکتا ایسا خمینی جیسا انقلاب برپا کرنا بہت مشکل یا نا ممکن ہوتا ہے جس میں لاکھوں لوگوں کی جانیں چلی جاتی ہیں . سول نافرمانی کی کامیابی اور اس کے ساتھ ریاست کا بچنا نا ممکن ہوتا ہے . لنگڑا نیازی جو مثال پیدا کرنے جا رہا ہے وہ صرف ایک ہارے ہوے شخص کا ماتم ہے اور ایسی حرکتوں سے نا صرف اس کے خلاف مقدمات میں اضافہ ہو گا بلکہ مزید اعتاب کا شکار بنے گا

لنگڑا بدمعاش

پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار ایک لنگڑے بدمعاش نے ریاست کے خلاف بغاوت کا نعرہ لگاتے ہوے آئین و قانون کو ڈنڈہ بردار کرکنوں کی مدد سے پیروں تلے روندنا شروع کر دیا ہے . لنگڑے بدمعاش نے پوری دنیا کو دکھا دیا ہے کہ ایک ایٹمی قوت کیسے ایک نام نہاد لیڈر کے ہاتھوں یرغمال بنائی جا سکتی ہے . کیسے تین چار سو افراد کی ڈھال بنا کر آئین و قانون کا مذاق اڑایا جا سکتا ہے اور کارکنوں کی لعشوں پر کیسے سیاست چمکائی جا سکتی ہے
ریاست کمزوری کے اس نقطے پر جا پہنچی ہے جہاں ایک غیر مسلح لیڈر ملکی قوانین کی دھجیاں اڑا رہا ہے اور ریاستی رٹ کو مسلسل چیلنج کر رہا ہے . ایک ایٹمی قوت ایک لنگڑے بدمعاش کے سامنے بے بس نظر آتی ہے . اگر ریاست کی اس کمزوری سے ہر گلی محلے کا لنگڑا بدمعاش فائدہ اٹھانا شروع کر دے اور آئین و قانون کو پیروں تلے روند ڈالے تو ریاست عملا ختم ہو جاتی ہے . لنگڑا بدمعاش اس جنگل راج کی بنیاد رکھ رہا ہے جو آگے چل کر ریاست پاکستان کو نگل رہا ہے . اس وقت آئین و قانون کی پامالی اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی بے عزتی ایک کینچوے کی طرح ہے جو موجودہ معاشی بحران میں ایک ازدھا بن کر ریاست کو نگل سکتا ہے . اگر اس ملک کا ہر بدمعاش لنگڑا بدمعاش بن گیا تو نتیجہ کیا ہو گا ریاست کے اندرایک نئی ریاست کا جنم ہو گا قانون نافذ کرنے والے ادارے بے بس ہو جائیں گے اور طالبان طرز انقلاب اس ملک میں نمودار ہو جاۓ گا
ٹی ٹی پی اور پی ٹی ائی میں فرق صرف بندوق کا ہے جب کہ دونوں کی جنگ ہی ملکی آئین و قانون کے خلاف ہے . یہ ایک سول نافرمانی ہے جس میں لنگڑا بدمعاش قانون ماننے سے انکار کر دیتا ہے اور چند سو کارکنوں کے جتھے کے ساتھ قانون نافذ کرنے والے اداروں کو یرغمال بنا لیتا ہے . اب لنگڑے کی ریاست کے خلاف بغاوت میں نہ صرف وہ مرکزی ملزم ہے بلکہ اس کے حامی بھی اس بغاوت میں شامل ہیں . آئین پاکستان کی رو سے ریاست سے بغاوت کی سزا موت ہے . جہاں ریاست کو سختی سے بغاوتوں کو کچلنا ہے وہاں ریاست اس چنگاری کو آتش فشاں بنانے کے چکر میں ہے اور مسلسل لنگڑے کو سرنڈر کر کے ریاست کی بے بسی کا اعتراف کیا جا رہا ہے . اگر ریاست آئین و قانون نہ ماننے والے بدمعاشوں کے سامنے بے بس ہے تو سمجھ لیجئے ریاست ختم ہو چکی ہے

نیازی کے اسٹبلشمنٹ کے ساتھ پنگے

اس بات میں کوئی شک نہیں کہ اسٹبلشمنٹ نیازی کو سینے سے لگا کر رکھنا چاہتی ہے لیکن کچھ غلط فہمیوں کی بنیاد پر نیازی اسٹبلشمنٹ کے ساتھ پنگے بازی سے باز نہیں آ رہا . نیازی اس کھیل کا نیا کھلاڑی ہے جب کہ اس کے مخالف یہ سبق نوے کی دھائی میں سیکھ چکے ہیں
بات وہ ہی ہے دریا میں رہنا اور مگر مچھ سے ویر …… پاکستان کی تمام سیاسی پارٹیاں یہ سبق سیکھ چکی ہیں کہ اسٹبلشمنٹ کے ساتھ سینگ لڑانے میں ان کا اپنا نقصان ہوتا ہے . ایک تو اسٹبلشمنٹ کوئی گروہ نہیں صرف ایک شخصیت کے اشاروں پر چلتی ہے اور فسادی شخصیت کان لپیٹ کر ملک سے نکل جاتی ہے . سانپ جب گزر گیا تو لکیر پیٹنے کا فائدہ . اس کھیل میں نقصان سیاستدانوں کا ہی ہوتا ہے . سیاست کا کھیل اسٹبلشمنٹ سے بچ کر اور اپنے اصولوں پر سمجھوتہ نہ کر کے ہی کھیلا جاتا ہے
یا تو لنگڑے نیازی کو دماغی سمجھ کا کوئی مرض ہے یا پھر وہ دائمی طور پر بچپن میں پھنسا ہوا ضدی بچوں کی طرح حقائق دیکھے بغیر اپنی ضد پگانے کے چکروں میں رہتا ہے . یہ اقتدار کا کھیل اسٹبلشمنٹ ہمیشہ سے ہی ایسے ہی کھیلتی تھی جسے چاہا تخت پر بٹھا دیا جسے چاہا تختے پر لٹکا دیا . اب جب نیازی کو نکالا گیا تو وہ یہ کھیل سیاست کے میدان میں کھیلنے کو تیار نہیں وہ بار بار اسٹبلشمنٹ کو درمیان میں گھسیٹ لیتا ہے . کبھی باجوے پر چڑھ دوڑا تو کبھی ڈرتی ہیری کے نعرے . یہ ایک کھیل تھا جرنیلوں کے بیچ لڑائی تھی اس میں نیازی کو موقع ملا ڈرتی ہیری کے نعرے لگانے کا ورنہ آج تک کسی سیاستدان کی جرات نہیں تھی ایسی زبان استعمال کرنے کی
نیازی جتنا اسٹبلشمنٹ سے پنگا لے گا اتنا نقصان اٹھاۓ گا . پہلے گل کی باری گل نے فوج پر اثر انداز ہونے کی کوشش کی اس کے بعد سواتی نے بات کا بتنگڑ بنا دیا . اب نیازی تمام تر معاملات کو لے کر اسٹبلشمنٹ کے ساتھ جنگ چھیڑنا چاہتا ہے . ایسا تب ہی ممکن تھا جب نیازی کی حیثیت اردگان جسے لیڈر کی ہوتی جس کی ایک کال پر انقلاب آ گیا تھا . نیازی کے پاس عوامی دباؤ نہیں اور وہ مسلسل اسٹبلشمنٹ کو دھمکیاں دے رہا ہے . اس کا نتیجہ نیازی کے لیے ہی خراب نکلے گا . نیازی کہاں تک بھاگے گا اور کب تک بنی گالا میں قید رہے گا اب اگلے مرحلے میں وہ اشتہاری ہو جاۓ گا . وہ اس قانون کے شکنجے سے صرف و صرف ایک کامیاب بغاوت یا کامیاب سول نافرمانی کی تحریک کے تحت ہی بچ سکتا ہے جو نا ممکن ہے . نیازی کو چاہئیے تھا سبق سیکھتا اپنی سیاست پر فوکس کرتا اسٹبلشمنٹ کے ساتھ پنگے نہ لیتا تو آج اس کی کچھ نہ کچھ بچت ہو جاتی

نون لیگ کو بزدلی مروا گئی

انتخابی نشان شیر کے ساتھ گیدڑوں جیسی حرکتوں نے نون لیگ کو مروا دیا . ایک وقت زرداری پر اسٹبلشمنٹ کا اتنا دباؤ آیا کہ لوگ ایمبولینس کی باتیں کرنے لگے لیکن وہ ڈٹا رہا اسی طرح ایک وقت لنگڑے نیازی پر اتنا دباؤ آیا کہ اس کی فلمیں رلیز کرنے کی نوبت آ گئی لیکن اس نے بھی اپنی عزت کی پرواہ نہیں کی وہ بھی اپنے اسٹبلشمنٹ مخالف موقف پر قائم رہا . بلکہ وہ ڈرتی ہیری جیسی گندی زبان استعمال کرتا رہا
اب نواز شریف پر بھی جیل میں وقت آیا ، شریف خاندان نے نا صرف اسٹبلشمنٹ سے سمجھوتہ کیا بلکہ مریم نواز کا ٹویٹر ایک لمبے عرصے تک خاموش رہا . اب اس بزدلی دکھانے کی ایک سیاسی قیمت تو ادا کرنی پڑے گی . پھر بات یہاں ختم نہیں ہوتی شہباز بوٹ پالش ایک وفادار کتے کی طرح نا صرف اسٹبلشمنٹ کے بوٹ چاٹتا رہا بلکہ جب انہیں سخت ترین ضرورت تھی اس وقت بھی بغیر کسی سودے کے وہ پراجکٹ نیازی کا ملبہ اٹھانے کے لیے تیار تھا . پھر پنجاب حکومت کو لے کر جو تماشا ہوا اس کے بعد بھی شہباز بوٹ پالش نہ حکومت چھوڑنے کے لیے تیار تھا اور نہ ہی معاشی محاذ پر کوئی کامیابی حاصل کر سکتا تھا
نون لیگ نے اپنا سارا وزن ہی اسٹبلشمنٹ کے پلڑے میں ڈال دیا تھا اور عوام کو مہنگائی کے سونامی میں ڈبو کر شریف خاندان کو فکر تھی تو صرف اپنے مقدمات کی جن کا خاتمہ اسی وقت ہونا تھا جب ان کی مرضی کے لوگ اداروں کے سربراہان لگنے تھے . جیسے ہی نیب اور ایف ائی اے میں ان کی مرضی کے لوگ بیٹھے یہ کیسوں سے با عزت بری ہوتے چلے گۓ . اداروں میں اپنے بندوں کی مدد سے حکومت کی پرانی عادت نہیں چھوٹی
اب بھی عوام کی کوئی فکر نہیں اب نظر چیف جسٹس پر ہے جب فائز عیسیٰ چیف بنے گا تو نواز شریف نہ صرف با عزت بری ہو گا بلکہ الیکشن میں بھی انہیں مدد ملے گی . اب منظر نامہ بدل چکا ہے اسٹبلشمنٹ تو چاہ کر بھی الیکشن میں دھاندلی نہیں کروا سکے گی اور فائز عیسیٰ چاہ کر بھی شریف خاندان کو ریلیف مہیا نہیں کر سکے گا . یہ ہی نون لیگ کی اصل سیاست تھی وہ اداروں میں اپنے ہمدردوں کی مدد سے اقتدار حاصل کرتے تھے اور ساتھ مل کر کھاتے تھے
اب اسٹبلشمنٹ والا چراغ کا جادو تو ختم ہو گیا تو نون لیگ کہاں کھڑی ہو گی وہاں جہاں ملکی تاریخ کا کوئی بدترین حکمران کھڑا ہو . یا ایسا حکمران جس نے مہنگائی اور معاشی تباہی سے قوم کو تباہ کر دیا ہو . اگر یہ بزدلی نہ دکھاتے اور نواز شریف جیل میں رہتا تو اب تک ایک بار پھر وزیر اعظم ہوتا . اقتدار موت کا کھیل ہوتا ہے اگر موت سے ڈر جاۓ تو اقتدار نہیں ملتا . اب کس منہ سے پنجاب کے الیکشن میں جائیں گے جب پنجاب ہاتھ سے جاۓ گا تو اسٹبلشمنٹ کے ایما پر گناہ بے لذت نیازی سے دشمنی کا انجام کیا نکلے گا ؟

معاشی تباہی کے دھانے پر

اب یہ بات واضح ہو رہی ہے کہ اداروں نے پاکستان کا دیوالیہ نکالنے کا فیصلہ کر لیا ہے . ایک طرف معاشی تباہی ہے تو دوسری طرف سیاسی افرا تفری . سپریم کورٹ کے فیصلے نے ملک کو دیوالیے کی طرف دھکیل دیا ہے . یا تو الیکشن ہو سکتے ہیں یا ملکی معیشت بچائی جا سکتی ہے . معاشی تباہی کی صورت میں ویسے ہی الیکشن ہو جائیں گے . جب عوام کے پاس بجلی ہو گی نہ پٹرول ہو گا تب کون انتخابات مانگے گا ہر کسی کو ملک کی فکر ہو گی ایسی صورت میں انتخابات نا ممکن ہو جائیں گے
ایسا ہونا نا ممکن تھا کہ پاکستان جیسا ملک جس میں پچاس ارب ڈالر کی فارن آمدنی ہو وہ ڈیفالٹ کر جاۓ لیکن معاشی منیجمنٹ نے پاکستان کو اس موڑ پر لا کھڑا کیا ہے کہ اب ایک بار اس کا دیوالیہ نکلنا نا گزیر ہو چکا ہے . ملک کا سارا انحصار قرض پر تھا جب قرض دینے والوں نے ہاتھ اٹھا لیا تو اب معاشی انجنیروں کی سمجھ سے باہر ہے کہ کرنا کیا ہے ؟ ایسا پلان بن سکتا تھا کہ درامدات کو کنٹرول کر کے گزارا کیا جا سکے لیکن کیوں کے یہ کوئی سوچ ہی نہ سکتا تھا کہ قرض کے بغیر ملک چلانا ہے تو اب نیا پلان بنانا مشکل ہے ایسے میں ملک کا دیوالیہ نکل چکا ہے
جب ایک دن میں ڈالر پندرہ روپے بڑھ جاۓ تو کیا یہ ملک کا دیوالیہ نہیں . جب ملک میں شرح سود بیس فیصد ہو جاۓ تو کیا یہ ملک کا دیوالیہ نہیں . جب مہنگائی کنٹرول سے باہر ہو جاۓ تو کیا یہ ملک کا دیوالیہ نہیں . جب پورٹس پر پڑے کنٹینر کلئیر نہ ہو رہے ہوں تو کیا یہ ملک کا دیوالیہ نہیں ؟ جب ہم ائی ایم ایف کو سرنڈر کر دیں تو کیا یہ ملک کا دیوالیہ نہیں ؟
پاکستان دیوالیہ ہو چکا ہے بس فرق صرف اتنا ہے کہ ابھی تک ایک باریک ڈوری سے تھوڑا بہت کنٹرول کا بندھن بندھا ہوا ہے وہ بھی اب اس الیکشن کے جھٹکے سے ٹوٹ جاۓ گا اور پاکستان کا فری فال ہو جاۓ گا . فری فال ہو یا کنٹرولڈ یا سلیکٹڈ ڈیفالٹ دونو صورتوں میں وہ ہی کچھ ہونا ہے جو ہو رہا ہے ، مہنگائی ، ڈالر کنٹرول میں نہیں اور امپورٹ کا ڈالر نہیں صبح قیمتیں اور شام کو قیمتیں کچھ اور . ایک بات واضح ہو چکی ہے کہ اب پاکستان کا نظام ایک تبدیلی کی طرف یا ری سیٹ کی طرف جاۓ گا کیوں کے اب ائی ایم ایف یا قرض کی طرف دیکھنا بے فائدہ ہے . جب دنیا کے سامنے ہماری معیشت ہو تو کوئی امداد نہیں دے گا . پاکستان کو ایک طرف اربوں ڈالر کے قرضے اگلے تین سال میں ادا کرنے ہیں اور دوسری طرف اپنی معیشت بھی سنبھالنی ہے . ایک جھٹکہ تو ضرور لگے گا اور اس کے بعد ایک لمبے عرصے تک حالات نارمل نہیں ہوں گے اگلے پانچ دس سال تک یہ قوم اس دیوالیے سے لڑتی رہے گی

اسٹبلشمنٹ کا پرانا کھیل اور سیاستدانوں کا کت خانہ

یہ کوئی نیا منظر نامہ نہیں پچھلے تیس سال سے ملک ایسے ہی چل رہا ہے . ایک پارٹی کی حکومت دوسری پارٹی کو انتقام کا نشانہ بناتی ہے اور جواب میں دوسری پارٹی پہلی کو انتقام کا نشانہ بناتی ہے . اصل میں تو اسٹبلشمنٹ کسی کو وفاداری کے بدلے نواز رہی ہوتی ہے اور کسی کو بے وفائی کے صلہ میں نشان عبرت بنا رہی ہوتی ہے . سیاستدان آپس میں کتوں کی طرح اسٹبلشمنٹ کی جنگ لڑتے ہیں . سیاستدانوں کی آپس کی لڑائی سے اسٹبلشمنٹ دو مقاصد حاصل کرتی ہے پہلا تقسیم کرو اور حکومت کرو اگر سیاستدان اکٹھے ہو جائیں تو اسٹبلشمنٹ کا کھیل ختم اور کھانا پینا بند دوسرا وہ اپنے گستاخوں کو سزا بھی دیتی رہتی ہے . سیاستدان تمام حدیں عبور کر کے ایک دوسرے کو گالم گلوچ اور دشمنی کا نشانہ بناتے ہیں جب کہ تخت پر بیٹھی اسٹبلشمنٹ کتوں کی لڑائی کا مزہ لیتی رہتی ہے جو کتا کمزور ہوتا ہے اس کی پلیٹ میں زیادہ ہڈی ڈال دیتی ہے تا کہ مار دھاڑ میں کمی نہ ہو. سیاستدان یہ سمجھتے ہیں کہ وہ بہت محنت کر رہے ہیں اور اگلوں کو بہت مجبوریاں ہیں لیکن ایسا نہیں وہ صرف انہیں حد میں رکھنے کی خاطر جعلی مجبوریوں کا جال بنتے ہیں
دیکھا جاۓ تو استبلشمنت اس ملک کی بادشاہ ہے بلکہ شہنشاہ ہے کوئی ایسا ادارہ نہیں جو اسٹبلشمنٹ کے کنٹرول میں نہ ہو اور کوئی ایسا سیاستدان نہیں جو اسٹبلشمنٹ کے کنٹرول میں نہ ہو. اب سپریم کورٹ کی مثال لے لیں کیا کوئی سوچ سکتا ہے کہ چیف جسٹس کوئی انہونی کر سکتا ہے . وہ بھی سیاستدانوں کی طرح اسٹبلشمنٹ کا پالتو ہے بلکہ ان سے زیادہ مجبور اور وفادار ہے . پھر یہ ڈرامہ کیا ہے یہ ڈرامہ ہے اس بلیک میلنگ کا جس کے تحت شہباز بوٹ پالش سے بد ترین معاشی فیصلے کروا کر نون لیگ کی سیاسی حیثیت تباہ کروانا مقصود ہے . اگر شہباز حکومت نہیں چلاۓ گا تو چیف جسٹس کی مدد سے نیازی آ جاۓ گا اور پھر وہ انہیں سڑکوں پر پھانسیاں لگاۓ گا .شہباز کو تو نون کی سیاست کا جنازہ نکالنا ہے . اسی طرح نیازی کا ڈرامہ ہے آخر کونسی رکاوٹ ہے کہ نیازی کو گرفتار کر کے سزا نہ دی جا سکے اور نواز شریف کی طرح تا حیات نہ اہل نہ کروایا جا سکے ، اگر نیازی نہیں رہے گا تو حکومت کو کسی کا ڈر نہیں رہے گا پرانی کتوں والی لڑائی ختم ہو جاۓ گی اور اسٹبلشمنٹ کا کھیل بھی ختم ہو جاۓ گا
ان کٹھ پتلیوں کی ہر حرکت اسٹبلشمنٹ کی انگلیوں کی حرکت سے ہے . نواز شریف نے باجوے کا نام لے دیا بہت بہادری کی لیکن اس کا اشارہ اسے ادارے کے اندر سے آیا تھا تا کہ باجوے پر پریشر ڈال کر فیض کو کنٹرول کیا جاۓ . جیسے جیسے ان بہادر سیاستدانوں کو ادارے کے اندر سے اشارے ملتے ہیں ویسے ویسے ان کے بھونکنے کی ٹون بدلتی ہے . آخر کب تک یہ سیاستدان اور اسٹبلشمنٹ قوم کو بیوقوف بناتے رہیں گے لیکن تاریخ گواہ ہو بے شک کسی عدالت نے سزا نہ دی ہو لیکن خدا کی عدالت نے ہمیشہ اسٹبلشمنٹ کے پروردہ وہ پرویز الہی ہو یا شہباز شریف یا لنگڑا نیازی سب کو ذلت و رسوائی کا مزہ چکھایا ہے

سی پیک کو چاٹوں کہ نوچوں پاور پلانٹوں کو

کہنے کو نہ تو بھارت میں کوئی موٹر وے ہے اور نہ ہی بنگلہ دیش میں . یہ لگزری روڈ بظاہر یورپ و امریکا کے روڈوں کی نکل ہے ایسے ملک میں جہاں لوگ ترقی میں بہت پیچھے ہیں بلکہ بجلی و پانی جیسی بنیادی ضروریات زندگی سے بھی محروم ہیں . جب حکمرانوں کا مرکز نگاہ عوام کی پسماندگی و غربت نہ ہو بلکہ وہ محمد شاہ رنگیلے کی طرح شاہ خرچیاں کرنے کے شوقین ہوں تو عوام ایسے ہی نیلام ہوتی ہے جیسے آج ہو رہی ہے . بھارت و بنگلہ دیش میں کرپشن بہت لیکن پھر بھی وہ ترقی میں ہم سے آگے نکل گۓ . کیوں کے وہاں کوئی معاشی انجنئیر اسحاق ڈار نہیں تھا جو عوامی ترقی کی جگہ اکاونٹس کی ہیرا پھیری کی ترقی پر یقین رکھتا تھا . بھارت و بنگلہ دیش میں سرمایا کاروں کو سہولتیں یہاں تک کہ لیبر قوانین کی دھجیاں اڑانے کی آزادی اور پاکستان میں نیب سے بچا تو ایف ائی اے میں اٹکا وہاں سے بچا تو بجلی گیس ڈالر کے جھٹکے
آج اربوں ڈالروں کی سی پیک کی سڑکیں موجود ہیں لیکن ان سڑکوں کو بنانے کے لیے جو قرض لیا گیا اس کی ادائیگیاں نا ممکن ہو چکی ہیں . اب جب ملک کے پاس پٹرول خریدنے کا ڈالر باقی نہیں بچا تو ان سڑکوں کا کیا استعمال باقی رہ گیا . کیا سی پیک کی سڑکیں بیچ کر قوم دو سال آرام سے گزارہ نہیں کر سکتی . جب گدوں کا جتھا قوم کا حاکم ہو اور سب کو اپنے حصے کی فکر ہو تب قوم کا یہ ہی حشر ہوتا ہے . بڑا پروجکٹ مطلب کرپشن کے بڑے مواقع . کرپشن کے مواقع نہ بھی ہوں بڑا منافع عسکری اور سیاسی پلیروں کے لیے جن کے فرنٹ مین اربوں کے کاموں کے بدلے انہیں اربوں سے نوازتے ہیں . سی پیک میں حصے کی خاطر عسکری و سیاسی قیادت نے سیم پیج پر آ کر اس قوم کو قرض کی اس دلدل میں پھنسایا جس سے نکلنا اب پاکستان کے لیے نا ممکن ہے
اسٹبلشمنٹ کے ایجاد کردہ سیاستدان قومی ایجنڈے کی بجاۓ اپنا ایجنڈا قوم پر مسلط کرتے ہیں اور قرضوں کے انبار لگا کر قوم کو قرض کی دلدل میں پھنسا دیتے . قوم چند سال سکون میں رہتی ہے اس کے بعد تا حیات قرضوں کا بوجھ اس کی گردن جھکاۓ رکھتا ہے . آج جب یہ قوم دیوالیہ ہونے جا رہی ہے تو اسے اپنے مجرموں کا ضرور پتا ہونا چاہئیے کہ وہ کون لوگ تھے جنہوں نے اس قوم کو قرض کی دلدل میں دھنسایا جس سے باہر نکلنا نا ممکن ہے