لنگڑے کا انجام

ریاست کی گود میں پلے وہ ناز نخرے والے انقلابی جو یہ سوچ نہیں سکتے تھے کہ انہیں گرم ہوا چھو سکتی ہے ،.وہ ابھی تک سوشل میڈیا کو ہی مرکز انقلاب سمجھے ہوے تھے اور خوابوں کی دنیا میں مست گالم گلوچ کی ساری حدیں پار کر رہے تھے . پھر ریاست حرکت میں ائی اور اب کوئی جیلوں میں سڑ رہا ہے اور کوئی غائب کر دیا گیا ہے . یہ سوچ نہیں سکتے تھے کہ ان کے ساتھ وہ سلوک ہو سکتا ہے جو ماضی میں سیاسی پارٹیوں کے ساتھ ہوتا رہا ہے . لنگڑا یہ سمجھتا تھا کہ وہ گرفتاری میں مزاحمت کرے گا اور ملک میں کوئی انقلاب برپا ہو جاۓ گا . آخر لنگڑے کو ٹکٹ کے بدلے پچاس بندے لانے کی دھمکی لگانا پڑی لیکن کیا زمان پارک کسی انقلاب کا مرکز بن گیا کوئی تحریر سکوئر بن گیا . کچھ بھی نہ بن سکا . بس لنگڑا مزید مقدمات میں پھنس گیا . یہ تو ریاست سے بغاوت والی بات تھی اور تماشا لگایا اپنی گرفتاری روکنے کے لیے جسے روکنا نا ممکن ہے
ایک کھلنڈرا کھلاڑی جو اس وقت تک ہی سکندر تھا جب تک ایجنسیوں کا وفادار تھا اور ان کے اشاروں پر ناچتا تھا . پھر جب اپنے سر پر ائی ہر موقع پر بلنڈر کیا اسمبلیوں سے استعفوں کا بچگانہ فیصلہ پھر اسمبلیاں توڑنے کی نادانی اور اس کے بعد بھی جب ریاست نے ایک میز پر بٹھانا چاہا یہ اپنی اکڑ میں ڈٹا رہا . اسے زعم تھا کہ اس کی پاپولیٹی سب بہا لے جاۓ گی لیکن اس کے گرفتاری کے ڈرامے کے بعد بھی کسی انقلاب کا کوئی خطرہ ریاست کو محسوس نہ ہوا تو اب ریاست اسے بلڈوز کرنے کے چکر میں ہے اور یہ اب آوازیں لگا رہا ہے میں سب سے بات کرنے کو تیار ہوں . اب تمہارا کھیل ختم . اب وہ انقلاب نہیں آنا جس سے تم ریاست کو ڈرا رہے تھے اب تمھاری گردن نے پھندے میں آنا ہے . یہ تو واضح ہو گیا اس کی احتجاجی حیثیت کسی کام کی نہیں اور سیاست پہلے بھی لوٹوں کے سر پر ہی کرتا آ رہا ہے
انقلاب لانا ٹویٹر اور ٹک ٹاک کا کام نہیں . انقلاب تب آتے ہیں جب عوام کا درد رکھنے والی بے خوف قیادت عوام کی زبان بولتے ہوے انہیں ایک مقصد کی خاطر اکٹھا کرتی ہے . جب عوام کو یقین ہوتا ہے ان کے لیڈر کے الفاظ بائبل ہیں نہ کہ وہ کنجر خانہ جو ٹک ٹاک پر دوسروں کی تضحیک اور جگت بازی کا انٹر ٹینمنٹ بن کر چوبیس گھنٹے بجتا ہے . لیڈر کی طرح فنکاری کر کے کوئی لیڈر نہیں بن سکتا . لیڈر بننے کے لیے اس کردار کی ضرورت ہوتی ہے جو نڈر بے خوف اصول کا پکا عزم صمیم اور مشکلات کشا جیسی صلاحیتوں سے لیس ہو . ایک کرکٹر جس نے ساری زندگی کھیل کود اور رنڈی بازی میں گزاری ہو اس کی کیا اوقات کہ وہ ایک قومی لیڈر بن سکے . لنگڑے کو ایک موقع ملا تھا حکومت ملی تھی لیکن وہ ایسا کچھ نہیں کر پایا کہ چند ہزار لوگ اس کے جانثار بن جائیں . آج وہ پچاس پچاس لوگوں کی بھیک مانگتا ہے اور وہ بھی اپنی ٹکٹ کی قیمت لگا کر. لنگڑا وہ نشان عبرت بنے گا جسے دیکھ کر لوگ کہیں گے کہ یہ ہے وہ بادشاہ جو اپنے کرتوتوں کے سبب بھکاری بن کر ذلت کی زندگی گزار رہا ہے

Leave a comment